اب لوگوں کیلئے یہ بات ناقابل فہم تھی کہ ایک مضبوط توانا نوجوان جو بلاخوف ہر خطرے کا مقابلہ انتہائی بہادری سے کرتا ہے۔ آخر گھوڑے سے اس درجہ خوف زدہ کیوں ہوجاتا ہے۔ خوفزدہ نوجوان بھی اس خوف کی وجہ سے ناواقف تھا
خوف ایک فطری کیفیت ہے‘ لیکن بے جا خوف انسان کی زندگی دو بھر کردیتا ہے‘ اس سے ایک فرد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ عزیزواقارب بھی عاجز آجاتے ہیں۔ ایک خاتون جنہیں گھر میں تنہا رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے‘ شوہر اور بچوں کیلئے مسئلہ بن گئیں‘ کبھی حیلے بہانوں سے بچوں کو سکول سے چھٹی کروائی جارہی ہے تو کبھی شوہر کی خوشامد ہورہی ہے کہ آج دفتر نہ جائیں‘ شوہر الگ پریشان کہ آخر روز روز چھٹی کیسے کریں اور اگر شوہر دفتر روانہ ہوگئے تو ادھر شوہر نے دفتر میں قدم رکھا کہ چاروں طرف سے لوگوں نے اطلاع پہنچانی شروع کی کہ گھر سے بیگم کا فون آیا تھا کہ ان کی طبیعت خراب ہے‘ فوراً گھر پہنچیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں ابھی تو ایک ہفتے کی چھٹی کے بعد دفتر جانا شروع کیا تھا۔ گھر میں ہر طرح کا سکون ہے بس ایک خوف نے زندگی دوبھر کردی ہے۔ ادھر بچے کے سکول میں اساتذہ نے ہنگامہ کیا ہوا ہے کہ اس قدر غیرحاضر رہنے والے بچے کی پڑھائی جاری رکھنا مشکل ہے‘ بہتر ہے کہ اس کو گھر بٹھائیں۔ یہ خاتون الگ شرمندہ اور پریشان کہ سب کچھ میری وجہ سے ہورہا ہے۔ ہزار مرتبہ ہمت کی‘ دل ہی دل میں خود کو ملامت کی لیکن بے سود۔
بظاہر معمولی چیز کے بے جا خوف پرقابو پانا ایک آسان بات لگتی ہے لیکن کوئی ترکیب کارگر نہیں ہوتی۔ آپ لاکھ سمجھائیں‘ ہمت بندھائیں لیکن ادھر خوف زدہ کرنے والی صورتحال کا سامنا ہوا ادھر ان کی حالت غیر ہوئی۔ اس وقت سارے دلائل دھرے رہ جائیں گے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوجائے گی۔ ہاتھ پیر کیا پورا جسم لرزنے لگے گا۔ یوں لگے گا بس اب جان نکلی۔ بعض افراد تو اس کیفیت میں چیخیں مارنے لگتے ہیں۔ پورا جسم پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ کیفیت دور ہوئی بالکل ٹھیک۔۔۔۔
وجوہات: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان بے جا خوف میں کیوں مبتلا ہوجاتا ہے؟ کسی خطرناک چیز سے خوف زدہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جو چیز یا کیفیت قطعی بے ضرر ہو اس سے ایک شخص اس درجہ خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ اکثر اوقات تو اس کا تصور ہی کرکے کانپ جاتا ہے۔ دراصل ہمارا ذہن ایک کمپیوٹر کی طرح تمام واقعات محفوظ کرتا رہتا ہے کچھ واقعات تو ذہن کے ایسے گوشوں میں محفوظ ہوجاتے ہیں جن کا ہمیں شعوربھی نہیں ہوتا جیسے ہی اس نوعیت کی کوئی چیز یا قصہ ہمارے سامنے آتا ہے گزشتہ واقعے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور اس سے منسلک خوشی‘ خوف یا نفرت کے جذبات بیدار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک بچے کا باپ حد درجہ تیزمزاج آدمی تھا۔ باپ کی آمد کے ساتھ ہی اس کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ جاتی۔ باپ گھوڑے پر آتاتھا اور گھوڑے کی ٹاپیں ہی اس کا دل دہلا دیتیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بچہ بہت چھوٹا تھا۔ اس کی کمسنی ہی میں باپ کا انتقال ہوگیا۔ باپ کی شکل و صورت اس کے ذہن سے محو ہوگئی لیکن گھوڑا اس کیلئے خوف کی علامت بن گیا اب لوگوں کیلئے یہ بات ناقابل فہم تھی کہ ایک مضبوط توانا نوجوان جو بلاخوف ہر خطرے کا مقابلہ انتہائی بہادری سے کرتا ہے۔ آخر گھوڑے سے اس درجہ خوف زدہ کیوں ہوجاتا ہے۔ خوفزدہ نوجوان بھی اس خوف کی وجہ سے ناواقف تھا۔
علامات: اگر ایسی کوئی صورتحال سامنے آئے جس سے کوئی خوف زدہ ہوتا ہے تو شدید گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے‘ وہاں چند منٹ ٹھہرنا ناممکن ہوجاتا ہے‘ دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے‘ پورا جسم پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس کیفیت میں چیخنے لگتے ہیں‘ اکثر اوقات رونے بھی لگتے ہیں جب یہ کیفیت دور ہوتی ہے جو خوف کا باعث تھی تو حالت بالکل ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی بیماری کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوتا۔
خوف کی اقسام: بیابان جگہ‘ اونچی جگہ‘ گھر میں اکیلے‘ تنہا گھر سے باہر نکلنا‘ ہجوم‘ بڑی شخصیت مثلاً استاد یا افسر وغیرہ۔ بچوں میں اسکول‘ خواتین میں زچگی‘ چھپکلی‘ مینڈک اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کا خوف پایا جاتا ہے غرض یہ کہ ایسی کسی بھی چیز سے غیرمعمولی خوف پیدا ہوسکتا ہے۔
اس بیماری کی مثالیں: رحیم صاحب کی عمر اکتیس سال ہے۔ ایک دو ا ساز ادارے میں بحیثیت کیمیکل انجینئر ملازم ہیں۔ اپنے کام پر پورا عبور حاصل ہے۔ کام کے دوران کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوتی لیکن جب کبھی کام کے بارے میں کوئی رپورٹ دینے کاموقع آتا ہے تو شدید خوف محسوس ہوتا ہے خصوصاً اگر یہ رپورٹ کسی میٹنگ میں پیش کرنا پڑے اس وقت خوف کی وجہ سے جسم کپکپانے لگتا ہے‘ ٹانگیں لڑکھڑانے لگتی ہیں‘ بہت زیادہ گھبراہٹ ہوتی ہے اور میٹنگ میں اپنا نقطۂ نظر دوسروں کے سامنے بیان نہیں کرسکتے۔ میٹنگ میں جیسے جیسے ان کے بولنے کا وقت قریب آتا ہے گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جب باری آتی ہے تو گھبراہٹ کی وجہ سے الفاظ کا تلفظ درست نہیں رہتا‘ دل اتنی زور زور سے دھڑکتا ہے کہ اس کی آواز کانوں میں محسوس ہوتی ہے۔ کسی اہم کانفرنس یا میٹنگ سے کئی دن پہلے گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ یہ خوف ہوتا ہے کہ کس طرح افسران کے سامنے بات کروں گا۔ یہ خوف رہتا ہے کہ اس موقع پر ذہن سے اہم نکات محو نہ ہوجائیں۔ رحیم صاحب عام طور پر کسی قسم کی گھبراہٹ محسوس نہیں کرتے۔ شادی شدہ ہیں‘ پُرمسرت ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں لیکن دفتر میں میٹنگ اور مذاکرات کی شرکت میں گھبراہٹ اور خوف کی وجہ سے اکثر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
علاج: اس مرض کے علاج کیلئے اور ان کیفیات کی مکمل تفصیلات مرتب کی جاتی ہیں جو خوف کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ مثلاً اگرکسی کو بس کے سفر کا خوف ہے تو اس سے معلوم کیا جاتا ہے کہ خوف کی ابتداء کس وقت سے ہوئی ہے‘ آیا بس دیکھتے ہی اسے خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس وقت اتنا ہی شدید خوف محسوس ہوتا ہے جتنا بس کے سفر کے دوران ہوتا ہے۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ مریض کو ابتدائی حالت میں نسبتاً کم درجے کا خوف محسوس ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے بس کے قریب تر ہوتا جاتا ہے خوف بڑھتا رہتا ہے۔ مثلاً بس کو دیکھ کر بھی خوف نہیں ہوتا جتنا بس میں دوران سفر ہوتا ہے۔ چنانچہ بس کو دور سے محض کھڑا ہوا دیکھ کر خوف کی شدت کے لحاظ سے کم تر درجے کا خوف کہا جائے گا اور ابتدا میں اسی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کیلئے معالج خود مریض کو اسی جگہ لے جائے گا جہاں سے بس دکھائی دے سکے۔ ایسا کرنے سے ابتدائی درجے کا خوف رفع ہوجائے گا اور پھر اگلے مرحلے میں بس کے قریب لے جاکر بس کے قریب جانے کا خوف اور بتدریج بس کے سفر کا خوف ہمیشہ کیلئے رفع ہوجائے گا۔
بعض اوقات مریض کے ساتھ معالج کا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں مریض کو مسکن دوا یا تنویمی تیکنیک کے ذریعے سکون کی کیفیت میں لاکر اس صورتحال کا تصور کرنے کیلئے کہا جاتا ہے جو اس کیلئے سب سے کم درجے کا خوف کا باعث تھی۔ پھر بتدریج شدید درجہ کے خوف کو دور کیا جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں